world war 1 in urdu | پہلی جنگ عظیم

world war 1  in urdu | پہلی جنگ عظیم
Photo by Museums Victoria on Unsplash




تاریخ عالم کے صفحات ہزار ہا جنگوں کی المناک داستانوں سے سیاہ ہو چکے ہیں مگر بیسویں صدی کے آغاز میں ایسی جنگ چھڑی کہ روئے زمین پر قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا اور ایسی المناک داستانیں رقم ہوئیں کہ آج بھی ان کے بارے میں سوچنا انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے ۔ یہ سنا ہوا تھا جب بھی جنگ چھڑتی تھی تو غم و الم کی ایسی ایسی کہانیاں سامنے آتی تھیں کہ انہیں کے بارے میں جاننا بھی ایک انتہائی تکلیف دہ عمل ہے ۔ 
ہرص ، لالچ ، ملک گیری ، اقتدار ، بالادستی ، معاشی دور ، تعصبات اور باہمی رقابتوں سے مرصع سفید چمڑی کے خوبصورت لبا دےمیں ملفوف سیاہ باطن اہل یورپ کے پیدا کردہ محرکات کے نتیجے میں ۲۸ اگست ۱۹۱۴؁ء سے ۱۱نومبر ۱۹۱۸؁ء  تک انسانی خون کی ارزانی کا وہ نمونہ پیش کیا گیا کہ جنگلی حیات کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملی ۔ 
انسانی اقدار پامال کی گئی ۔ درندگی اور شیطانیت نے انسانی مشکل کا لبادہ پہن کر بے بس و لا چار انسانیت کا بے دریغ قتل عام کیا ۔ ان سب سے برملا جو لوک انسانی خون سے لتھڑے ہوئے اٹھائے پھرتے تھے وہی لوگ ُنے اپنے آپ کو امن وامان کا سب سے بڑا علمدار ظاہر کرتے تھے ۔ ایسی منا فقانہ زندگی کا دور تھا کہ ائک طرف لوگوں کے کون کے پیاسے ہوئے پھرتے تھے تو دوسری طرف ان ہی لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کو پامال کرنے میں سب سے آگے ہوتے تھے ۔ 

.

یہ بھی پڑھیں



 جنگ کےایک طرف کے  اہم فریق 


جرمنی 
ترکی 
اٹلی 
جنگ کے دوسری طرف کے فریق  
برٹش 
فرانس 
امریکہ
بیلجیم 
یہ دونوں فریقیں ایک دوسرے پوری دنیا کے لئے دردِ سر بنے ہوئے تھے ۔ ان سب کی آپس میں گتھم گتھا ہونے اور قتل غارت کا بازار گرم کرنے کی اہم وجوہات یہ تھیں ۔ 

گریک اور ترکی کی آپس کی کشمکش 

جرمنی کے خود پسندانہ عزائم 

خلافت عثمانیہ کا زور افزو زوال 

ان سب وجوہات کی بنا پر ایک غم و الم کی فضا  بنی ہوئی تھی لیکن اس کے برعکس یہ تمام وجوہات اس جنگ کو عظیم بنانے میں جزوی حثیت رکھتی ہیں کیونکہ یہ وہ چیزیں تھیں جو معمولی چنگاری جیسا کام کرتی تھیں ۔ یہ چنگاریاں جب ایک ایک کر کے اکٹھی ہوتی گئی تو نوبت یہاں تک آگئی کہ پھر یہ چنگاریاں آگ کے بد تریں شعلے کی طرح بھڑک اٹھی اور ایسی آگ بھڑکی کہ اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ گویا کوئی بھی ذی نفس اس کی تپش سے خود کو بچا نہ سکتا ۔  
مندرجہ بالا تمام جزوی وجوہات کے درکنار ایک اہم وجہ یہ بھی تھی جو سب کی نظروں میں تھی اور وہ یہ تھی کہ آسٹریلیا کے بادشاہ Archdukaتھا ۔جس کا اصل نام  Franz Ferdinanet تھا۔اس کو۲۸ جون ۱۹۱۴؁ء کو Bosnia Herzegovina میں ۱۸۹۴؁ء پیدا ہونے والے  ایک انقلابی Gorrillo Princip ) )نے قتل کیا ۔ اس بادشاہ کے ساتھ اس کی بیوی بھی مر گئی ۔ اس قتل نے جرمنی اور برٹش میں آگ لگا دی ۔ ان شعلے دار چنگاریوں  والی آگ میں ا کروڑ ۵۰ لاکھ 
لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ 
اتنی المناک جنگ کے بعد ۲۸ جون ۱۹۱۹؁ء کو لیگ نیشنل بنائی گئی جس کا ہیڈ کواٹر  سوئز لینڈ کے تاریخی شہر گیوانہ میں بنایا گیا ۔ جس کوپلیس آف نیشنل کہا جاتا تھا ۔یہی لیگ آگے چل کر یونائٹیڈ نیشن کے قیام کا باعث بنی ۔ اس کا   مقصد دنیا کو اس چیز کی طرف راغب کرنا تھا کہ ایسی تمامشیزوں سے بچنے کی کوشش کی جائے ۔ جو پہلی جنگ عظیم کا باعث بنی لیکن بد قسمتی سے یہ لیگ اپنے مقاصد میں ناکام رہی  ۔
بظاہر ایک دفعہ تو پہلی جنگ عظیم ختم ہو گئی تھی لیکن اس جنگ نے ایسے ان فٹ نقوش چھوڑ دیے تھے کہ ان کومٹنے میں بھی بہت وقت درکار تھا ۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ  حالات میں بہتری کی طرف جانے لگے ۔ اب ان ممالک کے پاس   افرادی قوت ، ہرے بھرے کھیت ، عمدہ باغات  اور دیگر قدرتی وسائل تھے ۔ 
حصول دولت کی بالا دستی میں بیسویں صدی کے نصف کا آغاز ہو گیا ۔ اہل یورپ اب اس بات کےحامی ہونے لگے تھے کہ جس کی لاٹھی  اس کی بھینس یعنی جس کسی کے پاس بالا دستی ہو گی اسی کی انسانوں کی اس دنیا میں حکمرانی کرنے کا حقدار  ہو گا ۔ اسی بنیاد پر اٹھا ئے جانے والا  طوفان درندگی  انکی سوچوں میں معاون ثابت ہو رہا تھا ۔ 

بقول شاعر ۔۔۔

اسباب جنگ میسر ہونے کے لئے 
سوچوں کی شیطانیت قائم رہی

خلاصہ 
مندرجہ بالا بحث سے جو  چند اہم نکات سامنے آتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔ 
پہلی جنگ عظیم قتل و غارت کی ایک المناک داستان ہے ۔ 
یہ ایک منافقانہ زندگی ،  عزت و آبرو اور جان و مال کے پامالی کا دور تھا ۔
چند ممالک کی ذاتی دشمنی کی بنا پر لاکھوں لوگوں کی قتل عام تھا ۔ 
اس جنگ کی آگ نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ لیا ۔ 
ایک شخص کا قتل سب کے لئے وابلے جان بن گیا ۔ 
بالآ خر دولت کے حصول اور  حکمرانی کے حامی بن بیٹھے ۔
جنگ کا مقصد صرف شیطانی سوچ کو پروان چڑھانا تھا ۔
     
نتیجتا ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنگ عظیم اول اپنے دور کا پہلا اندوہناک عمل تھا جو بیسویں صدی میں سامنے آیا اور اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں   مرنے والوں کی تعداد کروڑوں  میں تھی اور  صرف فوجیوں کی تعداد ایک کروڑ رپورٹ کی گئی۔ اسی طرح مختلف شہر بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئے  جس کی  صورت میں اس شہر کی آبادی، کارخانے، کاروبار، اور وسائل زندگی بھی مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ 
یہ تباہی جہاں پر انسانی وسائل کی تباہی تھی وہاں پر یہ تباہی انسان اقدار کی بھی تباہی تھی۔ انسانوں میں  برداشت ایک اہم عنصر ہے  جس کی وجہ سے انسان باقی مخلوقات سے افضل قرار پاتے ہیں اور اس عنصر کا فقدان ہی جنگ عظیم اول کی بنیادی وجہ تھی۔ بیسویں صدی کا دور  اپنے مادی وسائل کے حوالے سے ایک اہم دور تھا لیکن اقدار کے حوالے سے یہ اتنا اہم دور نہیں تھا۔ کیونکہ اس دور میں انسانی وسائل کا استعمال انسانی تباہی کے لئے ہی کیا گیا۔  یہ دور اپنے بری، بحری اور فضائی وسائل میں  بے مثال تھا لیکن انہی وسائل کا استعمال ہی انسانی اموات میں اضافے کا سبب بنا کیونکہ  تمام وسائل کو  بئ دریغ استعمال کیا گیا اور انسانی حفاظت کو نظر انداز کیا گیا۔ 
اس صورت حال میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بطور قوم اور انسان ہمیں اس بات کا دھیان رکھنا چاہئے کہ ہم اپنے وسائل کا کتنا حصہ انسانی بقا کے لئے اور کتنے وسائل انسانی تباہی کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔  یہ سوچ ایک مثبت طریقے کی آگاہی ہے جس پر عمل کرتےہوئے انسان اپنے  آپ کو دوسرے انسانوں کے لئے مفید اور کاآمد بنا سکتے ہیں۔ 








Share it

Do not miss

world war 1 in urdu | پہلی جنگ عظیم
4/ 5
Oleh