history of pakistan in urdu | پاکستان کی تاریخ

history-of-pakistan-in-urdu | پاکستان کی تاریخ
Photo by Syed Bilal Javaid on Unsplash


 

                                       پاکستان کب وجود میں آیا ؟ ۔                                                              

پاکستان اسی وقت ہی ایک مسلمان کی سوچ میں معرض وجود میں آ گیا تھا  جب اسے اپنے مذہب کی پہچان ہوئی تھی ، جب اس کو مسلمان اور ہندؤ کے فرق کا آئینہ کا ر  عیاں ہوا ۔ برصغیر میں مسلمان اور ہندؤدو قومیں رہتی تھیں اور ہمیشہ سے مسلمان ہندؤں کے ہاتھوں اپنی عزت ، غیرت ،مذہب اور ارمانوں کا قتل ہوتا دیکھ رہا تھا اتنے مظالم سہنے کے بعد ان کے اندر یہ شعور اُجاگر ہونے لگا کہ ان کا بھی ایک مقام ہونا چاہیئے ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو فضیلت عطا کی تھی تو پھر وہ ان غیر مذہب کے سامنے محکوم کیوں بن کے رہ رہے ہیں ۔ 
ان تمام باتوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اس وقت جو اہم چیز تھی کہ اس چیز کی آوازحق بلند کرنے والا کون ہو اور یہ ہمت کون دیکھاگا ئے کون  سب سے پہلےیہ قدم اُٹھائےگا  وہ مرد مؤمن  کون بنے گا ۔وہ کون مرد مومن سر بلند کر کے سینہ تان کے ان سر کش ہندؤں کے مظالم کے سامنےکھڑا ہو جائےگا  ۔ شاید اس وقت ان مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی ذات مہربان تھی کہ قائداعظم جیسی ایک عظیم شخصیت کو  مسلمانوں کے لئے نجات دھندہ بنا کے بھیجا۔ 
  قائداعظم مسلمانوں کے ایسے مسیحا بن کے سامنے آئے جوہندؤں کےہاتھوں کھائے مظالم پر   مسلمانوں  کے لئےنہ صرف مرہم پٹی بنے بلکہ ان سب کے لئے ایک باقاعدہ مکمل علاج مہیا کیا۔  جب قائداعظم نے اس میدان میں قدم رکھا تو سب سے پہلے کانگرس میں شمولیت اختیار کی ۔ اور سیاست کے میدان میں بہت زیادہ محنت کی اور خوب نام کمایا لیکن جب ان  کو سیاست کے پیچ و خم سمجھ آئے تو ساتھ ہی ان پر یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات کے لئے ایک غلط پلیٹ فارم  کا سہارا لیا ہے ۔ کیونکہ در حقیقت کانگرس بنیادی طور پر ایک ہندؤں کی جماعت تھی   جو حتی الوسع اپنی تمام تر توجہات کا  مرکز ہندؤں  برادری کو ملحوظ خاطر رکھتی تھیاور اس کے بر عکس مسلمانوں کے تمام تر حقوق کو دبانے کی کوشش کرتے تھے جوچیز  قائداعظم جیسی شخصیت کے لئے ناقابل برداشت تھی ۔ 
قائداعظم نے اپنے ساتھیوں سے اس سوچ کو پختگی اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کےلئے مشورہ کیا جس کے نتیجہ میں ایک الگ سے سیاسی جمارت قائم کرنے کا فیصلہ ہوا جو سرف مسلمانوں کے حقوق اور ن کی بہتری کے لئے ہی سوچے گی گویا قائداعظم نے ۱۹۰۶؁ء میں مسلم لیککے نام سے ایک سیاسی جماعت قائم کی ۔ بس قائداعظم کا یہ قدم اُٹھانا ہی تھا کہ سب عام خاص نے بڑھ چڑھ کے حصہ لینا شروع کر دیااور آپ کا اس نیک کام میں بھرپور ساتھ دیا ۔ خود آپ نے بھی خوب محنت سے کام کیا کیونکہ یہ خالص مسلمانوں کی جماعت تھی تو سب کے دل کی بات ان کی زبان پر آ گئی تھی بقول شاعر ۔۔۔
ان لفظوں کو بھی زبان مل گئی 
جو دِل کے دریچوں میں چھپے بیٹھے تھے 

 جو الگ مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی کونپل ابھی مسلمانوں کے دلوں کھل رہی تھی قائداعظم کے اس قدم سے اسے تقویت ملنے لگی ۔دھیرے دھیرے وہ تمام اہم  شخصیات آپ کی سیاسی جماعت کا حصہ بننے لگیں جن کی معاونت بہت ضروری تھی جیسے علامہ اقبال ، سر سید احمد خان  ، مولانا شبلی نعمانی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہ۔ ان سب کی باہمی کوشش سے مسلمان اس سٹیج پر پہنچ گئے کہ برطانیہ کی انگریز قوم تک یہ بات پہنچ گئی کہ برصغیر میں ایک نہیں بلکہ دہ قومیں رہتی ہیں جن میں سے مسلمان وہ قوم ہے جو ٓذادی کی طلب گار ہے۔
یہ کوشش بالآخر اس نکتہ پر پہنچی کہ قائداعظم اور نیرو کے مذاکرات کیے جائے جو ۱۹۲۹؁ء میں دو فریقین کے درمیان ہوئے جن میں قائداعظم کا مدعا یہ تھا کہ مسلمانوں کے بنیادی حقوق سے محروم نہ کیا جائے بلکہ جہاںمسلمانوں کی اکثریت ہو وہاں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہو اور جہاں مسلمانوں کی اقلیت ہو وہاں انہیں بھی تحفظ دیا جائے گویا مقصد بیان یہ تھا کہ ہر قوم م وملت کو اپنے مذہب ، رسم ، رواج ، عبادات ، تنظیم و اجتماع اورض،یر کی آزادی حاصل ہونی چاہئے ۔  
جن نکات کی بنا پر مسلمان اپنے موقف اور ارادہ میں مضبوط اور قوی ہوئے وہ درج ذیل یہ ہیں ۔

علامہ اقبال کاخطبہ   الٰہ آبادجو ۱۹۳۰؁ء میں   دیا گیا   ۔
علامہ اقبال کا دو قومی نظریہ کا اعلان کرنا ۔
مسلمان اور ہندؤ دو الگ الگ قومیں ہیں ۔
دونوں قومیں اپنے اقدار ، رسم و رواج ، عقائد ، رہن سہن اور حقوق و فرائض کے پیش نظر بالکل مختلف ہیں ۔
ہر دو قوم کا آپس میں ایک ساتھ رہنا ممکن نہیں ۔
اس چیز کا  تمام حالات پہ اتنا اثر ہوا کہ برصغیر کے گوشے گوشے سے یہ صدائیں بلند ہونے لگی۔ 


لے کے رہیں گے پاکستان                                                                
بن کے رہے گا پاکستان                                                                

گویا قائد اعظم کی یہ کوشش منظر عام پہ آ چکی تھی اور مسلمانوں نے ریلیاں اور جلوس نکالنے شروع کر دیے تھے اس طرح ہندؤں پر ی چیز واضح ہوگئی کہ اب ان کو دبانا آسان کام نہیں جبکہ برٹش راج بھی اس بات متفق ہو گیا تھا کہ مسلمان اور ہندؤ دو الگ قومیں ہیںاس کے باوجود  وہ مسلمانوں کے حوصلے پست نہ کر سکے بلکہ دن بدن اس میں نظریہ کو تقویت ملتی چلی گئی ۔
قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی انتھک محنتوں نے یہ دن دکھایا کہ تمام تر مخالفت کے باوجود ۲۳ مارچ ۱۹۴۰؁ء کو قرار دار ِ پاکستان منظور ہوئی جیسے ہی یہ قرار دار منظور ہوئی تو جہاں مسلمانو ں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا وہاں ہندؤں نے مسلمانوں پراپنے مظالم کرنے کی انتہا کر دی  تو یہاں پر ایسے کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس وقت ہر ایک مسلمان نے اپنی عزت و آبرو ، جان و مال اور ہر ایک خوشی کو قربان کر کے اپنا پیارا وطن  پاکستان حاصل کیا تھا  بقول شاعر ۔۔۔
مظالم کی انتہا تھی یا خوشیوں کی ابتداء
ناکامیوں پہ تیری نیا آشیانہ مل گیا 

جب قراردار منظور ہو گئی تو مسلمانوں کو ایک امید سی لگ گئی کہ اب وہ دن دور نہں کہ جس دن ہم  مسلمان اپنے وطن عزیز پاکستان کی آزاد و شفاف فضا مین سانس لے سکیں گئیں ۔ ان آخری سات سالوںمیں  ہر ایک فرد  نے بہت ہی زیادہ   تگ و دو کی جو بھی مسلم لیگ سے وابستہ تھا ۔ دن رات کی اس انتھک محنت و کوشش نے یہ دن دکھایا کہ ۱۴ اگست ۱۹۴۷؁ء کو یہ اعلان ہو گیا کہ اب پاکستان آج کے بعد  ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے  ۔ مسلمان قوم کو اپنا مقام اور خود مختاری مل گئی  ۔ ایسا آشیانہ مل گیا جہاں پر ہر مسلمان اپنی زندگی اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ طور پر جی سکتا ہے ۔ 
ہندوستان سے مسلمانوں نے ہجرت کرنی شروع کر دی اور اپنے دیس کا رُخ کرنے لگے ۔ شروع شروع میں ہر ایک چیز کو قائم کرنے میں بہت سی دشواریاں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہندؤں نے آخری دم تک یہی کوشش رہی کہ مسلمانوں کے حصے میں آنے والی  تمام  چیزوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے تاکہ ان کو   ہر قسم  کے نقصان کا سامنا کرنا پڑے اور کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہو جائے ۔سچ کہتے ہیں گھر بنانا کوئی آسان کام نہیں لیکن بے لوث اور انتھک محنت کے ساتھ آج ہمارا پاکستان ۷۲ برس کا ہو گیا ہے جو اپنے گھر کے تمام افراد کو ہر قسم کی خوشی  وغم کے ساتھ بہت ہی خوبصورت انداز میں سنبھالے ہوئے ہے ۔ اچھے سے اچھے تعلیمی اداروں سے لے کر بڑے بڑے صنعتی پُرگراموں تک ہر چیز موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا جتنا شمار کیا جائے وہ اتنا ہی کم ہے  ۔ 
شکپسر کہتا ہے کہ کچھ لوگ پیدائشی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد کوشش اور کارناموں کی وجہ سے عظمت حاصل کرلیتے ہیں اور قائداعظم ان لوگوں میں سے ہی ہے جو اپنے بل بوتے پر ہی اپنی شخصیت  کو دوسروں جدا اور عیاں کرتے ہیں یہ ایسی شخصیت تھی جس میں عظمت و قابلیت اور نیک نامی جیسی تمام تر خوبیاں    موجود تھیں ۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ رب العزت نے اس عظیم تحفہ سے ہم مسلمان قوم کو نوازا  اور ان کی جواں مردی کی بدولت ہم آزاد فضا  میں سانس لے رہے ہیں ۔ 
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                                                

Share it

Do not miss

history of pakistan in urdu | پاکستان کی تاریخ
4/ 5
Oleh