history of kashmir - تاریخ کشمیر

history of kashmir
Photo by Unsplash



مسئلہ کشمیر بہت ہی پرانا اور تاریخی ہے یہ مسئلہ پاکستان، ہندوستان اور کشمیری حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔ یہ مسیل تقسیم ہندوستان سے چلا آرہا ہےاور اسی مسئلے کے تناظر میں پاکستان اور ہندوستان آپس میں جنگوں کی نوبت تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ ان جنگوں میں مسئلہ کشمیر براہ راست یا بلا واسطہ تنازع کی وجہ رہا ہے۔ یہ جنگیں عام طور پر ۱۹۶۵ٗ اور ۱۹۷۱ٗ کے عنوان سے جانی جاتی ہیں۔  

ان جنگوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں مین کئی حوالوں سے تنازعے پیدا ہوتے رہے لیکن ان کے اثرات عام طور پر کشمیر کے خطے میں دیکھنے کو ملے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ لائن آف کنٹرول پر بمباری ہوئی اور جس کے نتیجے میں کئی مسلمان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سلسلہ اسی طرھ سے چل رہا اور موجودہ طور میں اس مسئہ پر مکمل طور پر کشمیر میں بھارتی جانب سے لاک ڈاؤن کا غیر انسانی معاملے دیکھنے کو مل رہا ہے۔ یہ بات ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اس مسیلے کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ مسلمان مسلسل ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کا جرم صرف حق خود ارادیت ہے۔ 

کشمیر اس وقت دوحصوں میں بٹا ہوا ہے جن کو آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ آزاد کشمیر کو آزاد جمہوری حکومت چلا رہی ہے اور اس کے اثرات زیادہ تر پاکستان کی حکومت سے منسلک ہیں یہاں کے لوگ اپنے رسم و رواج اور رہن سہن میں اپنے عقیدے اسلامی کے مطابق ہے اور مقبوضہ کشمیر اپنے رسم و رواج میں آزاد نہیں ہے بلکہ بھارت کے طرز حکومت کا پابند ہے ۔

اسی وجہ سے کشمیر مسلسل اپنی آزادی کی کوشش میں گامزن ہے جو خود مختارآزادی کے حامی ہیں لیکن ان کے ساتھ ہی کچھ خود کو پاکستان کا حصہ بنانا چاہتے ہیں ۔ آزادی کے حصول کے لئے چند اہم افراد جو کشمیروں کے مطالبات  پیش کرتےہیں انہوں نے وقتہ فوقتہ مختلف جماعتیں بھی بنائی ہیں جو ان کےحقوق کے تحفظ اورآزادی جیسے مطالبات پر کام کرتی رہتی ہیں ۔ 

جن میں سب سے اہم جماعت  جماعت اسلامی کشمیر ہے ۔ یہ ایک مذہبی اور سیاسی تنظیم تھی اس تنظیم نے مسلمانون کی فلاح و بہبود کے لئے بہت کام کیا اور ہمیشہ سے آزادی کے لئے کوشاں رہی ۔ اس تنظیم کے مطابق جموں کشمیر بھارت کا حصہ نہ تھا اور نی ہونے دیں گے ۔ اس تنظیم کے بانی مولانا غلام احمد احرار ، مولانا مفتی محمد امین ، مولانا حِکم غلام نبی ، قاری سیف الدین ، مولانا سلیمان صاحب ہیں ۔ انہوں نے اپنے قول و فعل سے یہ بات ثابت کر دی کہ یہ جماعت جماعت اسلامی ہند کا حصہ نہیں بلکہ اپنی ایک الگ حیثت رکھتی ہے اور اپنی تمام تر کوششوں کا مرکز و محور مسلمانوں کو سمجھتی ہے۔ 

یہی نہیں بلکہ آج سے کئی سال پہلے ایسی ایک جماعت برطانیہ میں بھی قائم ہوئی تھی جس کا نام جموں کشمیر لبریشن فرنٹ تھا جس کی بنیاد کسمیری قوم پرست رہنما امان اللہ خان اور مقبول بٹ نے ۲۹ مئی1977ءمیں برطانیہ کے عہد برمنگھم میں رکھی تھی ۔ بھارتی میڈیا کو جب پتہ چلا کے برطانیہ مین کشمیریوں کی دکھی داستان کا پرچار ہو رہا ہے تو انہوں نے اس کے خلاف اقدام اٹھانا شروع کر دیا کیونکہ وہ کسی صورت نہیں چاہتے تھے کہ ان کی کارستانیوں کا پوری دنیا میں پرچار ہو اورہرملک سے  یہ آواز نکلے کے بھارت ظالم ہے اور کشمیر مظلوم ہے ۔
اس غرض سے انہون نے اس جماعت کی الٹی مخالفت شروع کر دی اس جماعت کو میڈیا پر نہ صرف بد نام کیا گیا بلکہ  اس جماعت کو دہشت گرد جماعت قرار دیا گیا  ۔ حالانکہ یہ ایک وضح حقیقت تھی کہ یہ جماعت ہمیشہ سے مظلوم کشمیریوں کی آزادی کی خواہاں تھی ۔ اور یہ چاہتے تھے کہ جو کشمیرپر برسوں سے دور شروع ہوا ہے وہ ختم ہو جائے اور ان ماؤں کو سکون ملے جو اپنے جوان بیٹوں کے غم روتی رہتی ہیں ۔ اس باپ کو سکون ملے جس نے جوان بیٹے کی لاش اٹھائی ہے اور اس بہن کو چین آئے جس نے اپنے بھائی کے سہرے نہیں دیکھے بلکہ اس کے جنازے پر بین کرتی رہی ہے ۔ 

کشمیریوں کے حوصلے اور ہمت کا جواب نہیں تب سے لے کر آج تک ان کے حوصلے ایسے جوان ہیں کہ جیسے یہ کل کی بات ہو ۔ کشمیریوں کے احتجاجات سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا جیسے ۲۰۱۶ء میں کشمیر احتجاجات کا واقع ہے ۔ جو جولائی کے ماہ  سے شروع ہوا ۔ یہ احتجاج کشمیری نوجوان عسکریت پسند  برہان وانی کی بھارتی فوج کی ہاتھوں ہلاکت پر جولائی کو شروع ہوا تھا ۔ وادی کشمیر میں یہ احتجاج شروع ہوا اور اسکی اصل وجہ برہان مطفر وانی کی شہادت تھی اور اس احتجاج کے حق میں آل پاٹیز حریت کانفرنس ہوئی جس میں جماعتیں شامل  ہوئی اور انہوں نے کشمیر کے حق میں حمایت کا اعلان بھی کیا ۔ 

مظاہرین کے مطالبات 

اس موقع پر مظاہرین کے کچھ مطالبات تھےکشمیر میں بحال کرنے کے لئے علیحدگی پسند کشمیری بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے ایک خط بھارتی اور عالمی برادری کو لکھا جس کے اہم نکات 

 مندرجہ ذیل ہیں ۔ 

 جموں کشمیر کی متنازع حیثیت اور اس کے باشندوں کا حق خودرادیت تسلیم کیا جائے ۔
  • آبادی والے علاقے سے فوجی انخلاء عوام کش فوجی قوانین کا خاتمہ ۔
  • تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی ، نظر بندی کے کلچر کا خاتمہ اور مسئلہ کشمیر سے جڑے سیاسی مکاتب فکر خاص چور پر حق خود رادیت کے حامی سیاسی رہنماؤں کو سیاسی سرگرمیوں ک آزادی  دی جائے ۔ 
  • اقوام متحدہ کے مبصرین اور انسان حقوق کے عالمی مبصرین کو کشمیر دور کرنے کی اجازت ۔

مندرجہ بالا کئی ایسے مطالبوں کے باوجود ہمارے کشمیر ی بھائی آج بھئ ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ اتنے حامی اکٹھے ہوئے اتنی آوازیں بلند کیں لیکن بھارت کو شرم نہیں آئی اور وہ آج بھی اسی طرح ظلم کی بوچھاڑکیے ہوئے ہے ۔ اس ضمن میں عالمی منظر نامے کی توجہ کو اگر دیکھا جائے تو تمام عالمی طاقتیں اس بات پر مصر ہیں کہ بھارت اپنی  پالیسیوں میں آزاد ہے  اور وہ اپنی  جارحانہ  پالیسیوں سے انسانی حقوق کی پامالی کیے ہوئے ہے۔  ان حالات کا اگر اندازہ لگایا جائےکہ کون سے عوامل بھارت کو دنیا میں حفاظت کا  خول پہنائے ہوئے ہیں تو سب سے بڑا عمل بھارت کی خارجہ پالیسی ہے جو خوشامدانہ انداز سے بھرپور ہے۔ اسی طرح ان عوامل میں ایک کردار بھارت کی پالیسیوں  کا  ہے جو معاشی طور پر بہت  حد تک دنیا کی معاون ہیں۔ 

یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ دنیا  دولت کے گرد گھومتی ہے اوردولت مند کی تمام خوبیوں  دولت کی وجہ سے ہوتی ہیں اور اس کی تمام خامیاں بھی چھپائی جاتی ہیں تا کہ اس کی دولت سے فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ اسی  طرح  ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ دنیا  معیشت  کے گرد گھومتی ہے اور یہ معاملہ افراد سے بڑھ کر ممالک میں  بھی ہوتا ہے اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔  یہی معاملہ  مسئلہ کشمیر پر بھی  ہے جس میں  مختلف ممالک  بھارت کی حمایت کر رہے ہیں اور اپنے معاشی فوائد حاصل کر رہے ہیں ۔ یہ  طریقہ کار  کشمیر  میں انسانی حقوق کی پامالی کا بھی باعث ہے جس سے مسلمان بالخصوص متاثر ہو رہے ہیں۔

  اس ضمن میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مسلمان ممالک اپنے معاملات میں اتحاد برقرار رکھیں اور جس قدر ممکن ہو دوسرے ممالک کی اپنے معاملات میں مداخلت کو بند کریں۔ یہ ظریقہ کا ر جہان پر مسلمانوں کی عزت کا باعث ہے وہاں یہ اس بات کا بھی ضامن ہے کہ  مسلمان ممالک کی بات کو توجہ سے سنا جائے اور ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بھی کافی ہے کہ مسلمانوں کو مذہبی رنگوں سے آزاد کیا جاے اور انسانی سطح پر ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا  جائے۔

 آخر میں دعا ہے اس رب العزت  سے جو ہر راز سے واقف ہے کہ اس کشمیر میں ظلم کے اس راج کو ختم کر کے امن کی خوبصورت وادی کو قائم و دائم رکھے ۔۔۔ آمین
   

Share it

Do not miss

history of kashmir - تاریخ کشمیر
4/ 5
Oleh